Category: Islamic Ethics
عید مبارک

bad effects of overeating | Dr Riffat Nawab Musab
Bad effects of fast food | Dr Riffat Nawab Musab
The secret to a healthy life | Dr Riffat Nawab Musab
What is the secret to a healthy life? How to avoid diabetes, obesity, heart disease, cholesterol, and kidney failure? What is meant by good and bad food? What is the difference between good and bad food? What are the causes of 70% of diseases in the present age and what is their simple solution? Why is the welfare of humanity in the Islamic way of life? What does Islam teach us about health care and the treatment of diseases? How does modern scientific research confirm Islamic teachings? Know all this confirmed and substantiated information in this video link;
شوگر، موٹاپا، امراضِ دل، کولیسٹرول اور گردے فیل سے کیسے بچیں؟ طیب اور خبیث غذاؤں سے کیا مراد ہے؟ طیب اور خبیث غذاؤں کی کیا پہچان ہے؟ موجودہ دور میں 70 فیصد بیماریوں کی وجوہات کیا ہیں اور ان کا آسان حل کیا ہے؟ اسلامی طرز زندگی ہی میں کیوں انسانیت کی فلاح ہے؟ اسلام ہمیں صحت کی حفاظت اور بیماریوں کے علاج کی کیا تعلیمات دیتا ہے؟ دور جدید کی سائنسی تحقیقات کس طرح اسلامی تعلیمات کی تصدیق کرتی ہیں؟ یہ سب مصدقہ اور مدلل معلومات جانئے اس ویڈیو لنک میں؛
Why does a person die from overeating | Dr Riffat Nawab Musab
ہماری صحت ہماری ذمہ داری
اچھی صحت کا راز
Guidelines for Health in Islam
اسلام میں صحت کے لئے ہدایات
بونوں کی فوج

اگر کسی معاشرے میں کچھ لوگ جمع ہوکر رہتے ہیں مگر ان میں کبھی کوئی اختلاف سامنے نہیں آتا، تو اس کی دو ہی وجوہات ہوسکتی ہیں۔
پہلی یہ کہ ان سب لوگوں نے اپنی اپنی عقل کو کسی پوٹلی میں بند کرکے کسی دریا میں بہادیا ہے ۔
یا پھروہ سب کے سب منافق بن کر رہ رہے ہیں، کیونکہ وہ اپنے علمی و عقلی اختلاف کو چھپا رہے ہوتے ہیں ۔
کیونکہ جہاں آپ رہتے ہیں، آپ معاملات پر غور و فکر بھی کرتے ہیں چنانچہ سوچنے کا عمل بھی جاری رہتا ہے، لہذا وہاں اختلاف پیدا ہونا فطر ی عمل ہے۔
یاد رکھیں کہ یہ اختلاف ایک دوسرے سے دور ہونے یا نفرت کرنے کا نام نہیں ہے ، بلکہ یہ اختلاف بہتر سے بہتر راستے کو جاننے کا نام ہے، راستے کو نئے زاوئیے سے دیکھنے کا نام ہے ۔
اگر کوئی آپ کے اس علمی اختلاف کا منصفانہ جائزہ لئے بغیر آپ پر جبر کرکے آپ کو “طرزِ کہن” پر قائم رہنے کا پابند کرتا ہے تو دراصل وہ آپ کو ذہنی غلام کی حیثیت میں دیکھنا چاہتا ہے۔ ایک ایسا غلام کہ جس میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت تو موجود ہے مگر اسے سوچ سمجھ کر اس کا اظہار کرنے کی اجازت نہیں ہوتی اور کبھی اختلاف کا اظہار ہوجائے تو اس پر معاشرتی جبر نافذ کرکے اس کی “تادیب”کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جب کسی گروہ یامعاشرے میں یہ چلن عام ہوجائے تو ایسا معاشرہ صرف “بونوں کی فوج” بن کر رہ جایا کرتاہے۔ ایسے معاشرے میں ہر سطح کا ذمہ دار دوسروں کو خود سے علمی اور عقلی طور پر کمتر خیال کئے ہوئے ہوتا ہے۔ لیکن ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ اسلام ہر طرح کی ذہنی اور جسمانی غلامی کا پندرہ سوسال پہلے ہی سدباب کرچکا ہے۔