
اگر کسی معاشرے میں کچھ لوگ جمع ہوکر رہتے ہیں مگر ان میں کبھی کوئی اختلاف سامنے نہیں آتا، تو اس کی دو ہی وجوہات ہوسکتی ہیں۔
پہلی یہ کہ ان سب لوگوں نے اپنی اپنی عقل کو کسی پوٹلی میں بند کرکے کسی دریا میں بہادیا ہے ۔
یا پھروہ سب کے سب منافق بن کر رہ رہے ہیں، کیونکہ وہ اپنے علمی و عقلی اختلاف کو چھپا رہے ہوتے ہیں ۔
کیونکہ جہاں آپ رہتے ہیں، آپ معاملات پر غور و فکر بھی کرتے ہیں چنانچہ سوچنے کا عمل بھی جاری رہتا ہے، لہذا وہاں اختلاف پیدا ہونا فطر ی عمل ہے۔
یاد رکھیں کہ یہ اختلاف ایک دوسرے سے دور ہونے یا نفرت کرنے کا نام نہیں ہے ، بلکہ یہ اختلاف بہتر سے بہتر راستے کو جاننے کا نام ہے، راستے کو نئے زاوئیے سے دیکھنے کا نام ہے ۔
اگر کوئی آپ کے اس علمی اختلاف کا منصفانہ جائزہ لئے بغیر آپ پر جبر کرکے آپ کو “طرزِ کہن” پر قائم رہنے کا پابند کرتا ہے تو دراصل وہ آپ کو ذہنی غلام کی حیثیت میں دیکھنا چاہتا ہے۔ ایک ایسا غلام کہ جس میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت تو موجود ہے مگر اسے سوچ سمجھ کر اس کا اظہار کرنے کی اجازت نہیں ہوتی اور کبھی اختلاف کا اظہار ہوجائے تو اس پر معاشرتی جبر نافذ کرکے اس کی “تادیب”کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جب کسی گروہ یامعاشرے میں یہ چلن عام ہوجائے تو ایسا معاشرہ صرف “بونوں کی فوج” بن کر رہ جایا کرتاہے۔ ایسے معاشرے میں ہر سطح کا ذمہ دار دوسروں کو خود سے علمی اور عقلی طور پر کمتر خیال کئے ہوئے ہوتا ہے۔ لیکن ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ اسلام ہر طرح کی ذہنی اور جسمانی غلامی کا پندرہ سوسال پہلے ہی سدباب کرچکا ہے۔